سپیشل بچوں کی مائیں

کبھی کبھی لگتا ہے کہ جنت تو ماؤں کے قدموں تلے ہے لیکن شاید جنت الفردوس سپیشل بچوں کی ماؤں کے قدموں تلے ہو گی۔ (سپیشل بچوں کی مائیں، تحریر: گل نوخیز اختر صاحب)

ان الفاظ میں چھپے کرب کا اندازہ ہر وہ ماں کر سکتی ہے جو اپنے سپیشل بچے کو سنبھالتے سنبھالتے صرف اُسی کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ نہ کوئی سوشل لائف، نہ کسی کے گھر آنا جانا، نہ دن کا خیال نہ رات کا، نہ نیند کا سکون نہ جاگنے کی لذت۔ یہ مائیں بعض صورتوں میں اپنی ساری زندگی اپنے سپیشل بچے کے مطابق گزارتی ہیں۔

انہیں محلے داروں، رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں سے اپنے بچوں کے حوالے سے مختلف کلیجہ چیرنے والے جملے سننے کو بھی ملتے ہیں، پاگل بچہ، اپاہج بچہ، معذوربچہ، گناہوں کی سزا، اللہ کا عذاب، توبہ توبہ، کڑی آزمائش، ہائے بیچارہ، ہائے بیچاری۔ یہ مائیں نہ روتی ہیں نہ شکوہ کرتی ہیں بلکہ جتنا کوئی ان کے بچے کے متعلق زہریلا جملہ اچھالتا ہے ان کا پیار اپنے بچے سے مزید بڑھتا چلا جاتا ہے۔

میں نے دیکھا ہے ایسی ماؤں کو اکثر ایک جملہ تواتر سے سننے کو ملتا ہے کہ ’آپ اس کا علاج کسی اچھے ڈاکٹر سے کیوں نہیں کرواتیں؟‘ گویا ماں باپ نہیں چاہتے کہ کوئی اچھا ڈاکٹر اُن کے بچے کا علاج کرے۔ ان بچوں میں زیادہ تر پیدائشی یا مستقل سپیشل ہوتے ہیں اور کئی ایک کی ’آزمائش‘ تو ماں باپ کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ یہ ننھے فرشتے ہمیشہ ننھے رہتے ہیں۔ ان کے اندر نہ منافقت ہوتی ہے نہ لالچ نہ خود غرضی، نہ یہ جائیداد میں حصہ مانگتے ہیں نہ شادی کرکے ماں با پ سے الگ ہوتے ہیں۔

لیکن ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کئی جہلا ایسے بچوں کو دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔ میرا ماننا ہے کہ یہ بچے قدرت کا انمول تحفہ ہوتے ہیں۔ جن کے ہاں یہ بچے موجود ہیں اُنہیں فخر کرنا چاہیے کہ وہ ایک ایسی زندگی کی پرورش کررہے ہیں جو اُن کے بغیر شاید زندہ نہ رہ سکے۔

میں نے اِن سپیشل بچوں کی کئی ماؤں کو ایک عجیب دعا مانگتے دیکھا ہے، بہت ہی عجیب اور دل دہلا دینے والی دعا۔ یہ مائیں چاہتی ہیں کہ اِن کے سپیشل بچے اِن کی موت سے پہلے خدا کے پاس چلے جائیں۔ اس دعا کا کرب وہی محسوس کرسکتے ہیں جو زمانے کی سنگدلی سے واقف ہیں۔

مائیں جانتی ہیں کہ اُن کے بعد اُن کے سپیشل بچے یا بچی کا کوئی والی وارث نہیں بنے گا۔ ایک بزرگ کالم نگار جووفات پا چکے ہیں ایک دن میرے آفس میں بیٹھے تھے، اچانک اپنی جوان بیٹی کا ذکر کرنے لگے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ انہوں نے جو کچھ بتایا وہ میں یہاں لکھنے سے بھی قاصر ہوں۔ اشاروں کنایوں میں اتنا سمجھ لیجئے کہ ان کی بیٹی کو آٹزم تھا اور وہ بتارہے تھے کہ چونکہ ان کی بیگم بہت عمر رسیدہ ہوچکی ہیں اوربستر سے اٹھنے کے قابل نہیں، بچے دوسرے ممالک چلے گئے ہیں لہذا اُنہیں ہر ماہ اپنی جوان بیٹی کے وہ کام بھی خود کرنے پڑتے ہیں جن کے لیے مائیں بنائی گئی ہیں۔

ہچکیوں کے درمیان انہوں نے ایک جملہ کہا جو میرے سر پر ہتھوڑے کی طرح آج بھی برستا ہے؛کہنے لگے ’تم میری بیٹی کو دیکھو گے تو کہو گے کہ یہ تو پریوں کی رانی ہے۔‘ یہ کالم نگار وفات پا چکے ہیں، اہلیہ بھی خدا کو پیاری ہو گئی ہیں اور پریوں کی رانی کو اس کے بہن بھائیوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا لہذا کسی ذہنی امراض کے سرکاری مرکز میں بھیج دیا گیا۔ سپیشل بچوں کے باپ بھی بہت کچھ برداشت کرتے ہیں لیکن ماؤں کا تو جواب نہیں۔ ایک ماں مجھے بتانے لگی کہ معاشرے میں شعور کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے کسی جگہ ذکر کیا کہ میرا بیٹا سپیشل ہے۔

یہ سن کر وہاں موجود ایک خاتون نے ’سپیشل‘ کا لفظ سن کر منہ بنایا اور کہنے لگیں ’تمہارا بیٹا کوئی زیادہ سپیشل ہے، الحمدللہ ہمارے تین بیٹے ہیں اور ایک سے ایک سپیشل ہے۔‘یہ مائیں رشتہ داروں سے نہیں مل سکتیں اور بعض جگہ رشتہ دارخواتین بھی ایسی ہیں کہ ماں کی پرابلم کو سمجھے بغیر اُسے اُسی کیٹگری میں رکھتی ہیں گویا وہ ان جیسی ایک نارمل زندگی گزارنے والی عورت ہے لہذا اسے خود بھی اُن کی طرف آنا چاہیے اور اُنہیں بھی بلانا چاہیے۔

گوجرانوالہ کی معروف شاعرہ فرحانہ عنبر بھی ایسے ہی ایک بچے کی ماں ہیں جو نہ حرکت کرسکتا ہے، نہ دیکھ سکتا ہے، نہ بول سکتا ہے۔ میں فرحانہ عنبر کا نام اُن کی مکمل اجازت سے شامل کر رہا ہوں۔ یہ بہادر ماں دن رات اپنے بچے کے ساتھ رہتی ہے۔ شاعری تخلیق کرتی ہے، بچے کو کروٹ بدلواتی ہے اور بچے کی ایک ایک حرکت سے جانتی ہے کہ اب اسے کس چیز کی ضرورت ہے۔ اسی عالم میں رہتے ہوئے اِس ماں نے شاعری کی پوری کتاب ’چلے آؤ نا‘ تحریر کرڈالی ہے۔ دنیا میں بہت غم ہے اور ہر کسی کو لگتا ہے کہ اس کا غم زیادہ ہے لیکن لوگوں سے ملیں تو پتا چلتا ہے کہ ہمارا غم اُن کے آگے کچھ بھی نہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ سپیشل بچوں کے لیے الگ سے پارکس ہوں، شاپنگ مالز ہوں، ان کی لیے الگ دنیا ہو جہاں کوئی ان کی طرف تاسف بھری نظروں سے نہ دیکھ سکے۔

اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پارکس، شاپنگ مالز میں کوئی ایک دن، کچھ گھنٹے سپیشل بچوں کے لیے بھی مخصوص ہونے چاہیں جس میں صرف ان کے والدین ہوں اور یہ بچے ہوں تاکہ ماؤں کو بھی آؤٹنگ کا موقع ملے، وہ بھی خوشی خوشی اپنے جیسی ماؤں کے ساتھ ملیں اور اپنے جیسے ماحول میں آزادانہ رہیں۔ ایک گزارش ان بچوں کے رشتہ داروں اور محلے داروں سے بھی ہے کہ خدا کے لیے جس گھر میں سپیشل بچہ یا بچی ہو وہاں بچے اور ماں کے وقت کی سہولت کو دیکھتے ہوئے جائیں۔ سپیشل بچوں کی ماؤں کے لیے ڈھیر ساری دعائیں، یہ جنت کے ٹکٹ جن عظیم ماؤں کے پاس موجود ہیں اُنہیں بہت بہت مبارک۔ سپیشل بچوں کی مائیں نوخیزیاں / گل نوخیزاخترروزنامہ جنگ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *